*محرم الحرام 2019*
*پہلی مجلس، حصہ اول*
*(علامہ راجہ ناصر عباس جعفری)*

"انّ الحسين يشهد أن لا اله الاّ اللّه وحده لا شريك له و أنّ محمّداً عبده و رسوله جاء بالحقّ من عنده و أنّ الجنّة حق و النار حقّ و الساعة آتيةٌ لاريب فيها و أنّ اللّه يبعث من فى القبور و أنّى لم أخرج أشراً و لا بطراً و لا مفسداً و لا ظالماً و انّما خرجتُ لطلب الاصلاح فى أمّة جدى أريد أن آمر بالمعروف و أنهى عن المنكر و أسير بسيرة جدّى و أبى على بن أبى طالب”۔
*تمہید:*
امام حسین ؑ کے وصیت نامہ کو جو اپنے بھائی محمد بن حنیفیہ کے نام لکھا عنوانِ سحن قرار دیا ہے۔ ان ایام میں مولا امام حسین ؑ کے فرامین کی روشنی میں کربلا اور امام حسینؑ کے قیام کے اہداف کو سمجھانے کی کوشش کرونگا۔ امام علیہ السلام نے اس وصیت نامہ میں اور اس کے علاہ باقی خطبات میں مدینہ سے لیکر کربلا اور عصرِ عاشور تک اُس زمانے کے لوگوں کے علاوہ قیامت تک آنے والے انسانوں کو مخطاب کیا ہے. ہمیں موردِ خطاب ٹھرایا ہے اور اہم پیغام دیا ہے۔ جس طرح قران کی آیتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں کبھی ایک دوسرے کی ضد نہیں ہو سکتیں، ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہوسکتیں اسی طرح ناطق قران کے کلام بھی آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ امام کے آہداف کو بیان کرتے ہیں کہ آخر امام نے مدینہ کیوں چھوڑا؟ مکہ میں حج کیوں نہیں کی؟ جب لوگ میدان عرفات کی طرف جارہے تھے امام مکہ سے کربلا یعنی عراق کی طرف کیوں سفر پر نکل گئے؟ اتنی عظیم قربانی کیوں دینی پڑی؟ اس کا مقصد کیا تھا؟ اتنا عظیم خون کیوں دیا؟ ہجرت کیوں کی؟ وطن کیوں چھوڑا؟ اولاد کی قربانی کیوں دی؟ شہزادیوں نے اپنی چادریں کیوں دیں؟ لہذا اس عظیم واقعے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
*اھل البیت، منبع اور ماخذ دین:*
کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ امام نے صرف ظلم مٹانے کے لئے قربانی دی۔ لہذا ہم نے قیاص آرائیاں اور اپنی مرضی سے واقعہ کربلا کو نہیں سمجھنا بلکہ ویسے سمجھنا ہے جیسے ہمارے امامؑ نے کہا ہے۔ یہ دینا میں ایک رواج قایم ہوا ہے کہ لوگ اپنی مرضی کے قرآنی ترجمے اور آحادیث اور اپنی پسند کی تفسیر چاہتے ہیں۔ اپنی پسند کا عقیدہ چاہتے ہیں اور اپنی پسند کا عمل چاہتے ہیں، جو سراسر باطل ہے۔ اگر اچھا عمل، اچھا قرآن فہمی اچھی تفاسیر اچھا اور پاک عقیدہ چاہیے تو وہ فقط اہلیبیت کےگھر سے چاہئے، معصومین اور ان کی لسانِ عصمت اور ناطق قرآن سے چاہئے۔ ان سے چاہئے جن کے بارے میں اللہ کے نبی نے فرمایا:
"انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اھل البیت ما ان تمسکتم بھما لن تضلوا بعدی حتی یردا علی الحوض”.
میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسی میری عطرتِ اہل بیت۔ جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے [ایک ہاتھ میں قرآن کا دامن اور دوسرے ہاتھ میں اہلیبیت ؑ کا دامن جب تک تھامے رہو گے] کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ اور یہ دونوں بھی کبھی جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ اللہ کے نبی کہتے ہیں حوضِ کوثر میں یہ دنوں اکھٹے میرے پاس آئینگے۔ ان کی معیت اور ہمراہی ایک دن کے لئے نہیں ہے، کچھ دنوں کے لئے نہیں ہے بلکہ اللہ کے نبی نے کہا یہ حوضِ کوثر تک اکھٹے رہیں گے۔لہذا ہم نے دین ان سے لینا ہے، دین اس گھرانے سے لینا ہے جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
"انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا”.
جنہیں خالقِ کائنات نے ہر قسم کے نقص سے دور رکھا ہے۔ یقین طہارت ہے اور شک نجاست اور شک سے خدا نے اھل البیت کو دور رکھا ہے اسی طرح علم طہارت ہے اور جہالت نجاست اور خدا نے اھل البیت کو جہالت سے دور رکھا ہے۔ ہر قسم کا نقص و عیب، اللہ نے ان سے دور رکھا ہے۔ جیسے قرآن لاریب اور بے عیب ہے اسی طرح یہ بھی لاریب اور بے عیب ہیں۔ لہذا ہم نے کربلا کو بلکل اسی طرح سمجھنا ہے جس طرح خود امام عالی مقام نے سمجھایا ہے۔ امام عالی مقام نے اس وصیت میں اپنے قیام کا مقصد بیان کیا ہے۔ یہ مولا کی معروف وصیت ہے۔ مولا نے اکسٹھ ہجری سے دو سال پہلے حج کیا اور منا میں تقریبا دو سو کے قریب صحابہ، آٹھ سو کے قریب تابعین یعنی صحابہ کی اولاد مجموعی طور پر تقریبا ایک ہزار لوگوں کو جمع کرکے خطبہ دیا جسے "خطبہ منا” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ امام کا بہت بڑا اور عظیم خطبہ ہے۔ مولا امام حسین ؑ کی اس عظیم قربانی کو سمجھنے کے لئے ہمیں اس منا کے خطبے سے استفادہ کرنا ہوگا۔
*مقام معصومین علیہم السلام:*
اصل مقصد کو بیان کرنے سے پہلے کچھ چیزوں کا سمجھنا ضروری ہے۔ بعض اوقات شخصیات اور واقعات دونوں میں تحریف واقع ہو جاتی ہے۔ جیسے واقعہ ہے ویسے بیان نہیں کیا جاتا، جتنا عظیم ہے ویسے بیان نہیں کیا جاتا یا کم کیا جاتا ہے کیا بڑھا دیا جاتا ہے۔ اور شخصیات کے بارے میں بھی ایسے ہی ہے۔ بعض اوقات انھیں بڑھا دیا جاتا ہے اور بعض اوقات گھٹا دیا جاتا ہے۔ یہ دونوں کام غلط ہیں۔ ہمیں اہلیبیت کو سمجھنا چائیے اور معرفت حاصل کرنی چاہئے اور امام کی معرفت ہونی چاہئے کہ وہ کس مقام اور مرتبے کے مالک ہیں۔ امام جو اتنا بڑا کارنامہ انجام دے رہا ہے وہ کون ہے؟ ہمارے امام نے فرمایا ہے کہ ہمیں اللہ نہ بناو، ہمیں خدا نہ بناو پھر اُس کے بعد جو چاہو ہمارے بارے میں کہہ دو کم ہے۔ زیارتِ جامعہ کبیرہ کو ہی دیکھ لیں کیسے ائمہ کا تعارف کیا گیا ہے۔ ان کی معرفت اور تعریف و تمجید کا عظیم منبع زیارت جامعہ کبیرہ ہے۔ اسے کثرت سےپڑھا کرو۔ زیارتِ جامعہ کبیرہ امام معصوم سے نقل ہوئی ہے اور ائمہ نے فرمایا ہے کہ جس امام کی بھی زیارت کرو اس امام کے روضے میں یہ زیارت پڑھا کرو۔ ائمہ کے فضائل اور مناکب کا عظیم زخیرہ ہے۔ اسی زیارت میں آیا ہے اے ہمارے ائمہ آپ کے ذریعے اس کائنات کی ابتدا ہوئی ہے اور آپ ہی پر اس کائنات کا خاتمہ ہوگا۔ جب امام حسین ؑ سے بیعت کا تقاضا کیا گیا اس وقت امام نے خطاب کر کے کہا:
"اس کائنات کے اول بھی ہم ہیں اور آخر بھی ہم ہیں۔ اللہ نے اس عالم کا آغاز ہم سے کیا ہے اور ہم پر ہی اس کائنات کا انجام اور اختیتام ہوگا۔ آپ کے ذریعے بارشیں ہوتی ہیں، آپ کے ذریعے اول بھی وجود میں آیا اور آپ کے ذریعے اختیتام ہوگا۔ جو کچھ انبیا پر اللہ کے ملائکہ لے کر آئے سب کچھ آپ کے پاس ہے۔اللہ کی رضا مل سکتی ہے تو آپ کے ذریعے مل سکتی ہے کسی اور کے زریعے نہیں مل سکتی ہے”۔

ائمہ کے درجات اور مراتب اس زیارت کے اندر بیان کرتے ہوئے امام فرماتے ہیں:
"اے میرے آقا اور مولا اے میرے ائمہ جو کچھ میں نے زیارتِ کبیرہ میں پڑھا یہ آپ کی شان میں کم ہے، آپ کے مقام اور مرتبے سے کم بیان کیا ہے۔ اے ہمارے ائمہ ہم جتنی بھی مدح کریں ہم اُس کا حق ادا نہیں کر سکتے”۔

مولا علی ؑ نے نہج البلاغ میں ارشاد فرمایا:

"میں وہ بلند چوٹی ہوں جس سے علم و معرفت کا سیلاب سرازیر ہوتا ہے۔ میں اتنا بلند ہوں کہ کسی طائرِ کی عقل مجھ تک پرواز نہیں کرسکتی”۔

اسی لئے شاعر کہتا ہے:
"لوگ کہتے ہیں علی بلند ہے میں کہتا ہوں کہ بلندیاں ہیں جو علی کے ذریعے بلند ہیں”۔
ان کی بارگاہ میں انسان عاجز ہے، جو بھی درک کرے گا وہ ناکافی ہے اور ناقص معرفت ہے۔ کوئی بھی محمد و آلِ محمد کی حقیقت کاملہ پر احاطہ علمی حاصل نہیں کر سکتا۔ اسی لئے روایت میں ہے:
” اللہ کی معرفت کا حق کسی نے ادا نہں کیا سوائے تیرے اور میرے اور میری معرفت کا حق ادا نہیں کیا سوائے اللہ اور تجھ علی کے اور تیری معرفت کا بھی کسی نے حق ادا نہیں کیا سوائے اللہ کے اور مجھ محمد کے”۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here